کبھی دعاؤں‘ کبھی سازشوں میں رہتا ہوں
جو تم ذرا سا بھی بدلے تو جان لے لو گے!
میں کچھ دنوں سے عجب واہموں میں رہتا ہوں
میں جس طرح سے کبھی دشمنوں میں رہتا تھا
اُسی طرح سے ابھی دوستوں میں رہتا ہوں
قدم قدم پہ ہیں بکھرے ہوئے نقوش مرے!
تمہارے شہر کے سب راستوں میں رہتا ہوں
کیا ہے فیصلہ جب سے چراغ بننے کا!
میں اعتماد سے اب آندھیوں میں رہتا ہوں
تمہارے بعد یہ دن تو گذر ہی جاتا ہے
میں شب کو دیر تلک آنسوؤں میں رہتا ہوں