یہ شہر دل سے زیادہ دکھا سا لگتا ہے
ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے
زمین ہے سو وہ اپنی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے
میرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو مجھے قہر خدا سا لگتا ہے
جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے
یہ رات کھا گئی اک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہوا سا لگتا ہے
دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تو بجھا سا لگتا ہے
جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے
ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے
یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے
ہوائے رنگ دو عالم میں جاگتی ہوئی لے
علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے
عبیداللہ علیم