درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں
خواب بن کر تو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اسی موسم میں نہائے جاؤں
تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں
جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبّت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں
تو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں
یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں
جان تو چیز ہے کیا رشتئہ جاں سے آگے
کوئی آواز دیے جائے میں آئے جاؤں
شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں
اہل دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آ ہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں
عبیداللہ علیم