رواں یہ بے حس اداس نہریں ہمارے جانے کے بعد ہوں گی
کھنچی ہوئی ہیں افق سے دل تک علامت وصل کی لکیریں
مگر یہ زندہ کئی قبیلوں کا خوں بہانے کے بعد ہوں گی
طلب کے موسم گنوائے میں نے کمال غم سے دھواں دھواں تم
شکایتیں یہ کڑے محاذوں سے لوٹ آنے کے بعد ہوں گی
گزرتے پتوں کی چاپ ہوگی تمہارے صحن انا کے اندر
فسردہ یادوں کی بارشیں بھی مجھے بھلانے کے بعد ہوں گی
لرزتی پلکوں کی چلمنوں پر نہیں ستارہ بھی پچھلی شب کا
کہا تھا تم نے کہ چاند راتیں تمہارے آنے کے بعد ہوں گی
زمین پیروں سے نکلے گی جب کھلیں گے سب بھید ساحلوں کے
رہائشوں کی شرائط اب کشتیاں جلانے کے بعد ہوں گی
مصور سبزواری