یہ آسماں سے دلوں کے غبار گزرے ہیں
مہک اٹھے ہیں در و بام و کوچہ و بازار
جہاں جہاں سے ترے بادہ خوار گزرے ہیں
مزاج پوچھتے پھرتے ہیں ذرے ذرے کا
دلوں کی راہ سے کچھ خاکسار گزرے ہیں
کلی نے بڑھ کے پکارا گلوں نے پیار کیا
کبھی چمن سے جو سینہ فگار گزرے ہیں
مجھے دکھاؤ نہ خون جمال لالۂ و گل
مری نظر سے یہ نقش و نگار گزرے ہیں
بہا سکا نہ انہیں وقت کا بھی سیل رواں
وہ چند لمحے جو اس دل پہ بار گزرے ہیں
ہماری راہ میں جذبی پہاڑ آئے پہ ہم
مثال ابر سر کوہسار گزرے ہیں
معین احسن جذبی