کہ اب مزاج بنا لیجئے شکاری کا
ہم احترام محبت میں سر جھکاتے ہیں
غلط نکال نہ مفہوم خاکساری کا
وہ بادشاہ بنے بیٹھے ہیں مقدر سے
مگر مزاج ہے اب تک وہی بھکاری کا
سب اس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں
وہ ایسا ڈھونگ رچاتا ہے شرمساری کا
جنہیں بلندی پہ جانا ہے جست بھرتے ہیں
وہ انتظار نہیں کرتے اپنی باری کا
منظر بھوپالی