سرکار نے آنا ہے محفِل کو سجانے دو
یہ نور نبی کا ہے داتا ہے زمانے کا!
اس در پہ عقیدت سے اب سر کو جھکانے دو
بغداد سے غوث آئے اجمیر سے خواجہ بھی
داتا کے غلاموں کو اب رقص میں آنے دو
مستوں کو مبارک ہو پُر کیف گھڑی آئی
بھر جائیں گئے پیمانے نظریں تو اٹھانے دو
یہ وقت ہے رحمت کا وہ سامنے بیٹھے ہیں
داتا کی گزرگاہ میں پلکوں کو بچھانے دو
یہ خاص عنایت ہے واصفؔ میرے داتا کی
سہرا یہ حقیقت کا نصرتؔ کو سنانے دو
واصف علی واصف