سنگِ در حبیب ہے اور سر غریب کا !

سنگِ در حبیب ہے اور سر غریب کا !
کس اوج پر ہے آج ستارہ نصیب کا
پھر کس لئے ہے میرے گناہوں کا احتساب
جب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیب کا !
راہِ فراق میں بھی رفیقِ سفر رہا !
زخمِ جگر نے کام کیا ہے طبیب کا
یہ بارگاہِ حسن دو عالم نہ ہو کہیں
ہے پاسباں رقیب یہاں کیوں رقیب کا
واصفؔ علی تلاش کرے اب کہاں تجھے !
دوری کو جب ہے تجھ سے تعلق قریب کا
واصف علی واصف
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *