کیوں تڑپ جاتا ہے سینے میں تمہارے نام سے
سب پئیں ساقی رہیں محروم ہم اک جام سے
ہو گئی برگشتہ قسمت گردش ایام سے
ہجر کی زحمت سے آغاز جوانی میں مرے
تھک گئے تھے ہم کچھ ایسی نیند آئی شام سے
غیر کی تشنیع کا ہم دے نہیں سکتے جواب
خون کی بوندیں ٹپکتی ہیں دل ناکام سے
صرف بیداری ہے اپنی عمر اے سودائے عشق
نیند آئے قبر میں شاید ہمیں آرام سے
جانتے ہیں خوب اس پیماں شکن کو ناصری
دل بہل جاتا ہے لیکن نامہ و پیغام سے
ناصری لکھنوی