تم چلے اٹھ کے مری جان قیامت آئی
آپ کے ظلم نے دی میری وفا کو شہرت
کہ مرے خون سے بھی بوئے محبت آئی
سچ ہے مرنے پہ نہیں کوئی کسی کا دل سوز
شمع بھی بجھ گئی جس دم سر تربت آئی
آہ سے میری زمیں ہل گئی تارے ٹوٹے
میں یہ سمجھا کہ زمانے میں قیامت آئی
مسکراتے ہوئے دنیا سے گئے اہل وفا
جان دے دینے سے چہرے پہ بشاشت آئی
ناصری لکھنوی