خلا اندر کا بھی تو اور بڑھتا جا رہا ہے
نہ جانے کس جگہ جا کر رکے گا سلسلہ یہ
بہت سے ‘آنگنوں’ میں صحن بٹتا جا رہا ہے
ہمارے پاس گھر بھی ہے اور اسکے سب مکیں بھی
مگر ۔۔۔جیون۔۔۔۔کہ راہوں پر ہی کٹتا جا رہا ہے
اسی مٹی میں آخر ایک دن یہ دفن ہو گا
اسی مٹی سے اس تن کو بچایا جا رہا ہے
نہ جانے کس جگہ پر مجھ کو شہزادی ملیگی
ابھی تک تو بلائوں سے ہی پالا جا رہا ہے
علی اس جسم کے مضبوط گھر کو کیا کروں میں ؟
اگر یہ جسم بنیادوں سے گرتا جا رہا ہے
محمد علی خان