فطرتِ عشق آسمانی بھی
شرط ہے جاں سے جائے پہلے
ہے عجب عمرِ جاودانی بھی
تم نے جو داستان سنائی ہے
ہے وہی تو مری کہانی بھی
کتنے دلچسپ لگنے لگتے ہیں!
میرے قصّے تری زبانی بھی
ہیں ضروری بہت ہمارے لئے
یہ فضا، آگ اور پانی بھی
ہو گئی ختم اِک کرن کے ساتھ
”رات بھی، نیند بھی، کہانی بھی ”
مت اُنہیں جانیے در و دیوار
ہیں یہاں یادیں کچھ سُہانی بھی
ہاں اِنہی پر کہیں ہوئی تحریر
میرے ماں باپ کی جوانی بھی
ہم جنہیں چھوڑ کر چلے آئے
تھے وہ اجداد کی نشانی بھی
لامکاں ہی کا ذکرِ خیر عدیل
گو ہیں قصّے بہت مکانی بھی
عدیل زیدی