تو جو چاہے بھی تو صیّاد نہیں ہونے کے

تو جو چاہے بھی تو صیّاد نہیں ہونے کے
لب ہمارے لبِ فریاد نہیں ہونے کے
کوئی اچھی بھی خبر کان میں آئے یا ربّ
ایسی خبروں سے تو دل شاد نہیں ہونے کے
تو رہے ہم سے خفا کتنا ہی چاہے لیکن
ہم کبھی تجھ سے تو ناشاد نہیں ہونے کے
کارِ دنیا کو ہیں درکار ہماری راہیں!
کارِ دنیا سے تو آزاد نہیں ہونے کے
ان گنت جاگتے چہرے گئے مٹی کے تلے
اب نئے ظلم تو ایجاد نہیں ہونے کے !
تاقیامت وہی اک نام رہے گا آباد!
ہم کبھی مستقل آباد نہیں ہونے کے
خاک ہو جائیں گے ہے یہ تو مقدّر اپنا
ہم مگر وہ ہیں کہ برباد نہیں ہونے کے
چاہے نمرود ہو فرعون ہو یا کہ ہو یزید
صاحبِ شجرہ و اولاد نہیں ہونے کے
اس کے کوچہ میں میاں خاک اُڑاتے کیوں ہو
تم سے مجنوں تو اُسے یاد نہیں ہونے کے
وہ زمانے کہ عدیل ہم بھی تھے اُس کی پہچان
وہ زمانے تو اُسے یاد نہیں ہونے کے
عدیل زیدی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *