صرف وہم و گماں سے کیا حاصل
بے یقینی ہی بے یقینی ہے !
ایسے ارض و سماں سے کیا حاصل
سوچ آگے بڑھے تو بات بنے
صرف عمرِ رواں سے کیا حاصل
آفتِ ناگہاں کو روکے کون؟
دولتِ بیکراں سے کیا حاصل
ایک چہرہ ہے کائنات مری!
صورتِ دیگراں سے کیا حاصل
جب ہی نہ اپنے ساتھ رہی
دولتِ جسم وجاں سے کیا حاصل
اب تو دل میں نہیں کوئی خواہش
صرف خالی دکاں سے کیا حاصل
اپنے اعمال کو بھی بدلو عدیل
صرف آہ و فغاں سے کیا حاصل
عدیل زیدی