کس لیے احساس کی حد سے گزر جاتا ہوں میں
ڈوب جائے گی تو اپنے آنسوئوں میں سوچ لے
چھوڑ کے اے زندگی تجھ کو اگر جاتا ہوں میں
زخم بے انداز ہیں پھر بھی ٹھہرِ شہرِ طلب
آنے والی کل کی خاطر پھر سنور جاتا ہوں میں
کھنچتا ہوں سانس میں سنسان راتوں میں خلش
اور دن کے درد میں ہر سو بکھر جاتا ہوں میں
چیختے لمحوں کے آنسو اپنے دامن میں لیے
مجھ پہ یہ الزام ہے کہ اپنے گھر جاتا ہوں میں
کون جانے کون سی منزل بنے منزل مری
آتا ہوں جانے کدھر سے اور کدھر جاتا ہوں میں
بھید لے کے رات کی تاریکیوں کے اے قمر
چپکے چپکے دن کی بستی سے گزر جاتا ہوں میں
سید ارشاد قمر