مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے
راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں
نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے
قافلوں کو منزلوں کی سمت کرتا ہوں رواں
بے جہت چلنے کی باتیں کیوں سناتے ہو مجھے
میں کھڑا ہوں ایک مقصد سے تمہارے درمیاں
عزم کی دیوار ہوں میں، کیوں گراتے ہو مجھے
تھا پیمبر روشنی کا ظلمتوں کے دور میں
اب چراغِ انجمن ہوں کیوں بجھاتے ہو مجھے
تھک کے تخلیقِ چمن میں نیند تو آنی ہی تھی
اب چمن سے جا چُکا ہوں کیوں بلاتے ہو مجھے
میں قمر ہوں، روشنی میں لائوں گا ہر شخص کو
میرے لوگو! اس عمل سے کیوں ہٹاتے ہو مجھے
سید ارشاد قمر