ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں
مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں
مرے فلک کے وہ چاند تارے اجڑ چکے ہیں
جو میرے آنسو شمار کرتے جو پیار کرتے
وفا کے پیکر سبھی سہارے اجڑ چکے ہیں
اب آنکھ دریا میں کوئی طوفاں نہیں اٹھے گا
مری نگاہوں کے سب کنارے اجڑ چکے ہیں
تمہاری شوخی گئے دنوں کا حساب مانگے
تمہیں خبر ہے کہ غم کے مارے اجڑ چکے ہیں
جو بھید سینوں میں تھے کبھی بے اماں ہوئے ہیں
جو راز ہونٹوں پہ تھے ہمارے اجڑ چکے ہیں
یہ وقت بھی کھا گیا ہے کتنی محبتوں کو
قمر جواں تھے جو یار سارے اجڑ چکے ہیں
سید ارشاد قمر