”نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہیں رکاب میں”
یوں کانپتا ہے شیخ خیالِ شراب سے
جیسے کبھی یہ ڈوب گیا تھا شراب میں
اس بات پر بھی ہم نے کئی باب لکھ دئیے
جو بات رہ گئی تھی خدا کی کتاب میں
تنقید جام و مے تو بہت ہو چکی حضور
اب کیا خیال ہے غم ہستی کے باب میں؟
رندوں کی بے ہستی بھی خبردار چیز تھی
اکثر جھگڑ پڑے ہیں حساب و کتاب میں
لطف اس مشاعرے میں ملا کاک ٹیل کا
جمنا کا رس بھی آن ملا ہے چناب میں
سید ضمیر جعفری