میں کمالِ ضبط سے ڈر گیا
وہ نظر ملا کے مکر گیا
جسے مجھ کو ہی تھا سمیٹنا
وہ تو پل میں خود ہی بکھر گیا
وہ مثالِ قطرہِ شبنمی
میری چشمِ تر سے اتر گیا
وہ تیری نظر کا جو لمس تھا
میرے دل پہ جس کا اثر ہوا
کوئ جاودانی کا جام تھا
تیرےہاتھ سے جو زہر پیا
مجھے رنج ہے تو فقط یہی
میں نے خون دل کا نہیں کِیا
مجھے اپنی ذات سے اور بھی
ہیں گلے ہزاروں شکایتیں
میرا حرف حرف گواہ ہے
ہیں یہ ساری میری حکایتیں
کیا یہ رتجگوں کی تھکن نہیں
تیری آنکھ اتنی جو لال ہے
ہاں یہ رتجگوں کی تھکن نہیں
یہ بوجہِ چشمِ غزال ہے
یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے
یہ تو اپنا اپنا کمال ہے
سید شکیل عارض