زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں
نوجوان بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اُڑے
گائوںکی جھولی میں کچھ مجبور مائیںرہ گئیں
بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون
نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں
اک اک کرکےہوئے رخصت مرےکنبےکے لوگ
گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں
بادہ خانے، شاعری، نظمیں، لطیفے، رت جگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں
راحت اندوری
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *