ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اُڑا بھی نہ سکوں
پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی دُنیا
یہ تیرا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں
مری غیرت بھی کوئی شے ہے کہ محفل میں مجھے
اس نے اس طرح بُلایا کہ جا بھی نہ سکوں
پھل تو سب میرے درختوں کے پکّے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں
اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو
ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں
راحت اندوری