یوں بھی تو نہیں ہے کہ وفادار نہیں ہیں
اب میں بھی محبت میں گرفتار نہیں ہوں
اب وہ بھی محبت میں گرفتار نہیں ہیں
میں بھی تو سرِ دشت نہیں پہلے کے جیسا
پہلے کی طرح وہ بھی سرِ دار نہیں ہیں
کیوں ایسے اُٹھے جاتے ہیں فنکار یہاں سے
فن گریہ کناں ہے‘ رہے فنکار نہیںہیں
ان بجھتی نگاہوں میں ذرا غور سے دیکھو
کیا واقعی ہم تیرے طلبگار نہیں ہیں؟
ملتے ہیں وقارؔ اب بھی اگرچہ وہ خوشی سے
پر عشق کے پہلے سے وہ آثار نہیں ہیں