میں محبت کے ستاروں سے نکلتا ہوا نور
حق و نا حق کے لبادوں میں چھپا ایک شعور
میرے ہی دم سے ہوا مسجد و مندر کا ظہور
میں مسلمان و برہمن کے ارادوں کا فتور
میں حَیازَادی و خوش نَین کے ہونٹوں کا سُرور
کسی مجبور طوائف کی نگاہوں کا قصور
میری خواہش تھی کہ میں خود ہی زمیں پر جاؤں
اور زمیں زاد کا خود جا کے میں انجام کروں
وہ زمیں زاد کہ احسان فراموش ہے جو
وہ زمیں زاد کہ جو خود ہی زمیں پر اُترا
اور زمیں وہ جو وفادار نہیں ہو سکتی
وہ زمیں‘ جس پہ کئی خون کے الزام لگے
وہ زمیں‘ جس نے یہاں دیکھے ہیں کٹتے ہوئے سر
وہ زمیں دیتی رہی ہے جو گناہوں کو پناہ
وہ زمیں ‘ جس نے چھپائے ہیں کئی راز و نیاز
سازشیں ہوتی رہیں جس پہ محبت کے خلاف
اور وہ چپ ہے اُگلتی ہی نہیں ایک بھی لفظ
مسئلہ یہ ہے کہ اب کس سے’ ’گواہی‘ ‘ مانگوں