یعنی کہ امتحاں میں جا پہنچے
جب زمیں سے ہمیں نکالا گیا
گُنبدِ آسماں میں جا پہنچے
جو مکاں کی تلاش میں نکلے
قافلے‘ لا مکاں میں جا پہنچے
جونہی پاؤں یقین سے پھسلے
منزلِ صد گماں میں جا پہنچے
جن پہ ظاہر ہوئے ہیں دَیر و حرم
وہ ترے آستاں میں جا پہنچے
آرزو حدِّ جاں سے باہر کی
عالمِ رفتگاںْ میں جا پہنچے
اتنے گُم تھے وقار ؔ ذات میں ہم
کیا خبر کس جہاں میں جا پہنچے!