کب سے بیتاب کھڑے ہیں ترے گھر کے باہر
خود پسندی نے مجھے خود سے نکلنے نہ دیا
عاجزی لا نہ سکا اپنے بیاں کے اندر
یوں سرِ راہ تو میں شعر سنانے سے رہا
جا کسی بھیڑ میں جا ڈھونڈ کوئی بازی گر
میں وقارؔ اُس کو دلاسے ہی تو دے سکتا ہوں
جانی آ! دیکھ کوئی فکر نہ کر، فکر نہ کر