اب اُس کے بعد بھلا اور خواہشات کہاں
میں ایک وہم کی پرچھائیں‘ تُو خدائے جہاں
مری بساط کہاں اور تیری ذات کہاں
تجھے جو سوچوں تو ہستی سے ماورا ہو جاؤں
مرا شعورِ وجود از تصورات کہاں
یہ عشق ہے اِسے محدود کون کہتا ہے
میاں یہ دشتِ بَلا اور کائنات کہاں
وقارؔ آج ملیں وہ تو دیکھتے ہی نہیں
وہ پہلے جیسی محبت وہ التفات کہاں
*
اُس کے پاؤں میں پڑے رہتے ہیں دنیا والے
وہ جو اک شخص ترے در پہ پڑا رہتا ہے
مجھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا کسی شخص کا دکھ
میرے اندر بھی کہیں جیسے خدا رہتا ہے