عاشقی کا حصول ہے تری یاد

عاشقی کا حصول ہے تری یاد
ہجر کا عرض و طول ہے تری یاد
مجھ سے دو چار ہی خطائیں ہوئیں
اُن میںسے ایک بھول ہے تری یاد
یاد تیری عذاب ہے ویسے
مجھ کو پھر بھی قبول ہے تری یاد
زندگی کے اصول ہوتے ہیں
اور پہلا اصول ہے تری یاد
خود پہ کتنا ملال ہے مجھ کو
خود بھی کتنی ملول ہے تری یاد
*
آسماں والے ایک بات بتا
یہ زمیں کس لئے بنائی گئی؟
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *