ضائع ہونے کے مراحل سے

ضائع ہونے کے مراحل سے گزارا بھی گیا
مار کر زندہ کیا‘ زندہ کو مارا بھی گیا
پیار پر فخر کیا، فخر پہ مِلنی تھی سزا
اُس کو جیتا بھی گیا، جیت کے ہارا بھی گیا
اُس کا اک نام ہی تھا میرے لئے بیساکھی
وہ مجھے چھوڑ گیا، میرا سہارا بھی گیا
موت کا اپنا کوئی ہوتا نہیں کیا صاحب!
چھوڑ کر چاند گیا، چاند کا تارا بھی گیا
میں بھی انسان ہوں، اک حد ہے مرے صبر کی بھی
حد بنائی بھی گئی، حد سے گزارا بھی گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *