ستم پسند بھی کوئی کسی

ستم پسند بھی کوئی کسی ستم میں مَرا
یا کوئی ڈھیٹ بھلا ایسے ایک دم میں مَرا
یہ کُڑھتے رہنا کچھ آسان تو نہیں صاحب
مجھے بھی دیکھ کہ میں دوسروں کے غم میں مَرا
وجود اپنی ہی مرضی کا جب نہیں پایا
عدم میں جیتا رہا اور پھر عدم میں مَرا
جب اعتماد نہیں تھا بہت سکون میں تھا
میں خود فریب تو بس اپنے ہی بھرم میں مَرا
مرے تو پیار میں بھی مبتلا ہوا تھا خدا
میں بدنصیب کہ میں خواہشِ صنم میں مَرا
وہ پہلا ہاتھ کہ جس نے لکھی تھی پہلی کَتھا
یہ پہلی بار تھا کوئی کسی جنم میں مَرا
میں جنگ جیتنے کی ٹھان کر نہیں آیا
وقارؔ کافی ہے میں سایۂ عَلم میں مَرا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *