ہم کہاں ایسے باز آتے ہیں
زندگی روز گھٹتی جاتی ہے
مسئلے روز بڑھتے جاتے ہیں
اب کہاں بھوت اور بَلائیں رہیں
آدمی‘ آدمی کو کھاتے ہیں
ایک وہ‘ ہم سے دور رہ کے بھی خوش
ایک ہم‘ اپنا دل جلاتے ہیں
خاک سے خاک بھی نہیں ملتی
روز ہم خاک چھان آتے ہیں
موسمِ نارسائی آیا ہے
صبر کی فصل اب اُگاتے ہیں
*
اک آفتاب سرِ شامِ کربلا ڈوبا
بس اُس کے بعد زمانے پہ صبح قائم ہے