ہر ایک کو ہی کرب کی سُولی چڑھائے عشق
جس جس نے تیرے عنبریں پیکر پہ جان دی
وہ لامحالہ بنتا گیا ہے خدائے عشق
جب سے تمام شہر پہ قابض ہوئے ہیں قیس
تب سے چہار سمت ہے بس ہائے ہائے عشق
یہ عشق اک وجود سے تا عالمین ہے
سجدے میں آسمان کو آخر جھکائے عشق
میرے شعورِ زیست میں زندہ ہیں صرف وہ
جو جان وارتے ہیں بوجہِ بقائے عشق
میں قیس کے مزار پہ برسوں پڑا رہا
مجھ کو عطا ہوئی بھی تو بس اک دعائے عشق
جس کو طلب ہو آئے وہ لے جائے مرتبہ
ہم تو فقیر روز لگائیں صدائے عشق
میرے وجودِ خاک پہ کچھ بھی نہیں جَچا
مِن بعدِ خاکِ عِشْق و وَفَا یا قبائے عشق