کوئی بھی خوف نہیں چاہے پھر میں مر جاؤں
مجھے تو اپنے ہی لہجے سے خوف آتا ہے
کہ جتنا سچا ہوں میں زہر سے نہ بھر جاؤں
وہ بے بسی ہے کہ چہرے پہ ساتھ دِکھتی ہے
وہ شرم ہے کہ میں اب خود میں ہی اُتر جاؤں
کبھی تو میرے لئے منتظر ہوں گھر والے
میں چاہتا ہوں کبھی میں بھی اپنے گھر جاؤں
میں زندگی میں کچھ اس کے لئے نہ کر پایا
سو جان دے کے اب احسان اُس پہ دھر جاؤں
یہ لوگ کس لئے کوئی بھی میری بات سُنیں
میں بے اثر ہی تھا آیا سو بے اثر جاؤں
مرا یہ حال ہے میں خود سے دور بھاگتا ہوں
اُسے قبول تو کیا خود سے بھی مُکر جاؤں
وہ میری راہ میں بیٹھا ہے کب میں آؤں گا
میں سوچتا ہوں کہ میں پاس سے گزر جاؤں
وقارؔ جس نے مجھے بولنے کی قوت دی
تو کیا وہ چاہے گا اب لوگوں سے میں ڈر جاؤں