جنونِ وصل بھی تو میرے

جنونِ وصل بھی تو میرے یار دھوکا ہے
مرے خیال میں یہ عشق، پیار دھوکا ہے
میں غم فروش ہوں تُو میرا اعتبار نہ کر
یہ شعر ڈھونگ ہیں ، سینہ فگار دھوکا ہے
مجھے تمہاری ہوس اب کی بار ہے ہی نہیں
میں جانتا ہوں تمہارا خمار دھوکا ہے
اگر میں چاہوں تو میں تجھ کو چھین سکتا ہوں
مگر یوں ہجر سے راہِ فرار دھوکا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *