آ مجھے زہر پلا‘ دیر نہ کر
تُو بھی اب دیر نہ کر شیریں بدن
کر دے اب حشر بپا‘ دیر نہ کر
سب نے تو سنگ اُٹھا رکھے ہیں
تُو بھی اب سنگ اُٹھا‘ دیر نہ کر
آ ابھی سامنے آ بات تو کر
تُو صنم ہے کہ خدا‘ دیر نہ کر
سب مجھے چھوڑ چلے ہیں کب کے
تُو بھی اے جانِ وفا‘ دیر نہ کر
اَور بھی کام بہت کرنے ہیں
جو بھی دینی ہے سزا‘ دیر نہ کر
*
پھر وہ غمِ حیات سے آزاد ہو گیا
جس کو غمِ حسین ؑ کی دولت عطا ہوئی!