جو تیرے پاس گیا کھیل کر وہ جاں پہ گیا
تری زمین نے تجھ کو نہ میرا ہونے دیا
ترے حصول کی خاطر میں آسماں پہ گیا
تُو اک یقین زدہ اک یقین کی اولاد
ترا عقیدہ مگر کس لیے گماں پہ گیا
لگائی تُو نے یہ تہمت کہ اُس کوعشق نہیں
خدا کو چھوڑ کے جو تیرے آستاں پہ گیا
یہاں پہ جس کو بھی دیکھو خدا بنا ہوا ہے
وقارؔ وہ ہے سلامت جو جھوٹی ہاں پہ گیا
*
تم بہت پیاری ہو اور پیار کرنے والی بھی ہو
مجھ پہ مرتی ہو ؟ تو پھر طے ہے کہ تم بھولی بھی ہو
جو بھی مشکل سے نکالے وہ خدا لگتا ہے
کوئی پتھر ہو ، کوئی آدمی ہو ، کوئی بھی ہو