مرا یقین ہے خواہش، مرا گماں خواہش
تمہارے ہجر کی آتش میں جسم جلتا ہے
خیالِ وصل ہے مردہ، دھواں دھواں خواہش
مرے نَفَس کی بقا تیرا عنبریں پیکر
مری نگاہ سے ہوتی ہے جاوداں خواہش
یہ کیا پڑی ہے تجھے مجھ کو چھوڑ جانے کی
ابھی تو ہونے لگی تھی کہیں جواں خواہش
میں تیرے عشق کے باطن سے خوب واقف ہوں
ہر ایک گام پہ رکھّی ہے درمیاں خواہش
کبھی نہ سوچنا خواہش کو مات دینے کا
ہے ایک بپھرا ہوا بحرِ بیکراں خواہش
وہ کوئے یار ہو، مقتل ہو، یا ہو مے خانہ
میں چھوڑ آیا ہوں جانے کہاں کہاں خواہش
وقارؔ! شوق کی دنیا میں حشر برپا ہے
اور آج بکھری پڑی ہے یہاں، وہاں‘ خواہش