وہ کسک یادوں کی وہ گفتار پیہم یاد ہے
کھینچ رہی ہے وہی تصویر دل میں آج بھی
وہ سنہری دور وہ گہوارہ انجم یاد ہے
چھین ہی نہ لے کوئی احساس کی دولت کہیں
یاد ہے تو نے کہا تھا اب بھی کم کم یاد ہے
یاد ہے حیرت بڑھی جب نام دھرائے گئے
یاد ہے سجدہ گری انکار آدم یاد ہے
یاد ہے فردوس سا گھر اور میں تنہا مکیں
یاد ہے نہ راس آیا دانہ گندم یاد ہے
کاش اس سے دوستی کا شرف نہ ہوتا نصیب
وقتِ رحصت بیکلی وہ آنکھ پرنم یاد ہے
جام خالی کیا ہوا بڑھنے لگیں تنہائیاں
تشنگی کی آگ وہ شاہد جہنم یاد ہے
ڈاکٹر محمد افضل شاہد