عشق کہتا ہے کیے عہد کی تجدید کرو

عشق کہتا ہے کیے عہد کی تجدید کرو
حسن کہتا ہے ذرا صبر سے امید کرو
بات محنت کی ہے حالات بدل جاتے ہیں
کون کہتا ہے ہمیشہ نئی تمہید کرو
میں نے تو بول دیا آپ نکالو معنی
میرے لکھے پہ ذرا سوچ کے تنقید کرو
اور ملنے کی طلب مست خماری کا نشہ
ہوش آئے تو کہی بات کی تردید کرو
مشکلیں آن پڑیں جان بچائو یارو
وہ صحیح ہیں یا غلط مان لو تائید کرو
یہ ضروری نہیں خود عمل کریں کہنے پر
رہبری کا یہ تقاضہ ہے کہ تاکید کرو
زندگی اربعہ عناصر کے سوا کچھ بھی نہیں
روح کا چاند نکل آیا چلو عید کرو
ڈاکٹر محمد افضل شاہد
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *