ہر کسی کے ہاتھ میں تصویر ہونی چاہییے
خاص لوگوں کو بٹھائو عزت و تکریم سے
عام لوگوں کیلئے زنجیر ہونی چاہییے
عارضی سی شے حکومت کل رہے یا نہ رہے
بال بچے ہیں کوئی جاگیر ہونی چاہییے
واپڈا کے تار کھمبوں میں ہوں برق وبجلیاں
ہر گلی کوچے کی یہ تقدیر ہونی چاہییے
کھوکھلی سے ہو چلی ہے قوم کی طرزِ حیات
پھر نئی بنیاد پر تعمیر ہونی چاہییے
سُود نہ دینا پڑے اور اصل سے چھوٹے حیات
اس غضب والی کوئی تحریر ہونی چاہییے
ڈاکٹر محمد افضل شاہد