آخر کو سورج کی پریاں ہمیں ستانے آئیں گی
لمبی تان کے سونے والے بیکل ہو کر جاگیں گے
کوّوں کی پُر شور قطاریں کوئی سندیسہ لائیں گی
وقت کی چال کا شکوہ کرتے عمریں اپنی کھوتے ہیں
دانہ چگتے، تنکے چنتے پنچھی کچھ سمجھائیں گے
ہم کب اپنے حصے کے اشجار اگانے نکلیں گے
ہم کب اپنی دنیا کو اک نخلستان بنائیں گے
آہیں بھرتے، چھپ چھپ روتے لوگ ہمیں کچھ کہتے ہیں
کب ہم ان کو دیکھیں گے اور ان کے درد بٹائیں گے
دنیا کے نیلام گھروں میں ارزاں ہیں انسان بہت
چیزیں ان پر فائق کیوں ہیں اس کا کھوج لگائیں گے
دار و رسن کے خوف سے ہر سو جھوٹ کے سکے چلتے ہیں
صدق و صفا کا دور نہیں ہے کیوں کر ہم بچ پائیں گے
ڈاکٹر سعادت سعید