ترکِ عشق اور مجھ کو مار گیا
وہ جو آئے تو خشک ہو گئے اشک
آج غم کا بھی اعتبار گیا
ہم نہ ہنس ہی سکیں نہ ہی رو سکیں
وہ گئے یا ہر اختیار گیا
آپ کی ضد بے محل سے کلیم
سب کی نظروں کا اعتبار گیا
آ گئے وہ تو اب یہ رونا ہے
لُطفِ غم، لُطفِ انتظار گیا
کس مزے سے ترے بغیر خمار
بے جیے زندگی گوار گیا
خمار بارہ بنکوی