دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کسلیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بےخبرگھرسےنکل جاتےہیں لوگ
اپنے سائے سائے سر نیوڑھائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند، اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو، سنتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعر