اور رہ رہ کے وہ احسان جتانا شب وصل
قہر ہے زہر ہے اغیار کو لانا شب وصل
ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا شب وصل
دور کوسوں میری بالیں سے اڑی پھرتی ہے
کیا کوئی ڈھونڈ لیا اور ٹھکانا شب وصل
حاصل اس ذکر تغافل سے گزشت انچہ گزشت
فائدہ فتنۂ خفتہ کو جگانا شب وصل
یہ لگاوٹ تو رقیبوں کے رقیبوں سے رہے
اب کبھی آ کے مجھے منہ نہ دکھانا شب وصل
ظہیر دہلوی