اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے، نکہتِ گُل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شورِ طلاطم میں کوئی کس کو پکارے
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں، کیوں آئوں درِ اہلِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑوں سے جہاں چھن کے ضیاء تک نہیں آتی
کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن، آبلہ پا تک نہیں آتی
چُھپ چُھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوتِ گُل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا!
ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی
بہتر ہے، پلٹ جائو سیاہ خانئہ غم سے
اس سرد گھپا میں تو ہوا تک نہیں آتی
شکیب جلالی