خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں

خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟
یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
گزر ہوا ہے مرا کس اُجاڑ بستی میں؟
جھکی چٹان، پھسلتی گرفت ، جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق
ندی کو پار کیا کس نے اُلٹی کشتی میں
جلائے کیوں، اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط
کُریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں
عجب نہیں جو اُگیں یاں درخت پانی کے
کہ اشک بوئے ہیں شب بھر کسی نے دھرتی میں
مری گرفت میں آکر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں
چلو گے ساتھ مرے، آگہی کی سرحد تک؟
یہ رہگزر اُترتی ہے گہرے پانی میں
میں اپنی بے خبری سے شکیب واقف ہوں
بتائو پیچ ہیں کتنے تمہاری پگڑی میں
شکیب جلالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *