وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے
نور افلاک سے روشن ہو شب غم کہ نہ ہو
چاند تاروں سے مرا نامہ و پیغام تو ہے
کم نہیں اے دل بیتاب متاع امید
دست مے خوار میں خالی ہی سہی جام تو ہے
بام خورشید سے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح
خیمۂ شب میں بہت دیر سے کہرام تو ہے
جو بھی الزام مرے عشق پہ آیا ہو نعیم
ان سے وابستہ کسی طور مرا نام تو ہے
حسن نعیم