شیام کے عشق میں میرا کو دوانی لکھنا
تم کسی پھول کو مرجھاتے ہوئے دیکھنا جب
اس گھڑی بیٹھ کے انجام جوانی لکھنا
زندگی جس کے تصور سے سنور جاتی ہے
میرے حصے میں وہی شام سہانی لکھنا
اپنے مقصد کے لئے اہل سیاست نے یہاں
کس طرح کھوئی بزرگوں کی نشانی لکھنا
اس بہانے سے اتر جائے گا یہ دل کا بوجھ
اپنا ہر قصۂ غم اپنی زبانی لکھنا
ذکر جب بھی چھڑے تہذیب کا دنیا میں انا
اس قلم سے کوئی تاریخ پرانی لکھنا
انا دہلوی