افسوس اب جہاں میں شرافت نہیں رہی
اک مہرباں کی چشم کرم مجھ پہ ہو گئی
دنیا ترے کرم کی ضرورت نہیں رہی
تم نے نگاہ پھیری تو احساس یہ ہوا
دنیا میں کچھ خلوص کی قیمت نہیں رہی
یہ اور بات میں نے ہی تجھ کو بھلا دیا
ہم راہ میرے کب تری رحمت نہیں رہی
کیوں آپ کائنات سے بیزار ہو گئے
کیا دل میں روشنیٔ محبت نہیں رہی
منزل سے آشنا وہ کبھی ہو نہیں سکا
حاصل جسے کسی کی قیادت نہیں رہی
میں نے کسی کا دل نہیں توڑا کبھی انا
واللہ مجھ میں یہ کبھی عادت نہیں رہی
انا دہلوی