یہ نائو ڈوب نہ جانے کنارہ ملنے تک
ہوا کریدتی پھرتی ہے سارے ملبے کو
بکھرتی راکھ سے کوئی شرارہ ملنے تک
ہر ایک رُت نے کیا انتظار تیرے لیے
ہر ایک شاخ نے تجھ کو پکارا ملنے تک
میں اپنے آپ کبھی فیصلہ نہیں کرتا
تمہاری سمت سے کوئی اشارہ ملنے تک
بھٹک رہی ہے بیاباں جنگلوں میں غزل
نیا خیال، نیا استعارہ ملنے تک
اقبال نوید