بے حسی کا اس سے بڑھ کر واقعہ کوئی نہ تھا
کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے جانے کے سوا
جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا
مجھ کو ایسے پیڑ سے پھل پھول کی اُمید تھی
جس کی شاخوں پر ابھی پتا ہرا کوئی نہ تھا
میں نے جب رکھا تمہاری گود سے باہر قدم
ایک صحرا تھا کہ جس میں نقش پا کوئی نہ تھا
اک جزیرے پر گزاری زندگی ساری نوید
سب جہاں آزاد لگتے تھے رہا کوئی نہ تھا
اقبال نوید